About Me

My photo
The woods are lovely, dark and deep, But I have promises to keep, And miles to go before I sleep, And miles to go before I sleep.

Thursday 2 June 2011

میں غزل کہوں میں غزل پڑھوں مجھے دے تو حسنِ خیال دے



اُڑتے بادل، بزرگوں کی شفقت بنے دُھوپ میں لڑکیاں مسکراتی رہیں
جب سے جانا کہ اب کوئی منزل نہیں، منزلیں راہ میں آتی جاتی ہیں

رات، پریاں، فرشتے، ہمارے بدن، مانگ کر برف میں جل رہے تھے مگر
کُچھ شبہیں، کتابوں کے بجھتے دیئے، کاغذی مقبروں میں جلاتی رہیں

سارے دن کی تپتی ساحلی ریت پر دو تڑپتی ہوئی مچھلیاں سو گئیں
اپنے ملنے کی وہ آخری شام تھی ، لہریں آتی رہیں لہریں جاتی رہیں

ننگے پاؤں فرشتوں کا اک طائفہ ، آسماں سے زمیں پر اُترنے لگا
سر برہنہ فلک زادیاں عرش سے آنسوؤں کے ستارے گراتی رہیں

اِک دریچے میں دو آنسوؤں کا سفر ، رات کے راستوں کی طرح کھو گیا
نرم مِٹی پہ گرتی ہوئی پتّیاں ، سونے والوں کو چادر اُڑھاتی رہیں

No comments:

Post a Comment